Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

ہم بھی ایسے ہی تھے۔۔۔۔۔

Hum nhi aisay hi thay, Asad Mahmood, mazah, fun, college stories, posters, Urdu stories, Urdu columns, humor, satire, university, teaching,

نئے دیوانوں  کو دیکھیں  تو خوشی ہوتی ہے

ہم بھی ایسے ہی تھے  آئے تھے جب ویرانے میں

'کل آپ انٹرویو کے لیے آجائیں 'بے روزگاری کے دنوں  میں  ایک کالج سے جب مجھے فون آیا تولگاکہ اندھے کوگویا آنکھیں  مل گئی ہیں۔  صبح ہی صبح کالج جا پہنچا ۔  دو گھنٹے تک انتظار کے بعد پرنسپل آئے تو معلوم ہوا کہ فزکس کے اسسٹنٹ پروفیسر کی جس سیٹ کے لیے مجھے بلایا گیا تھا ۔  وہ خالی نہیں  رہی ۔  میں اسے قسمت کامذاق جان کر واپس پلٹنے کو ہی تھا کہ پرنسپل نے آفر کی کہ ہمیں  کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر کی بھی ضرورت ہے  اگر آپ پڑھانا چاہیں  تو بسم اللہ! ٹیچنگ سے میرا ویسے بھی کوئی لینا دینا نہیں  تھا ۔  میرا شعبہ Engineeringتھا ۔  لیکن 'مفت میں  ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟'کے مصداق فزکس نہ سہی' کیمسٹری سہی۔  میرے لیے مضمون سے فرق نہیں  پڑتا تھا ، بے روزگاری کے دِنوں  میں  ملازمت سے پڑتا تھا۔  سو، ہاں  کر دی۔

اب جہاں  تک پڑھانے کی بات ہے ۔  تو انجینئرنگ کے دوران میں  اور اس سے پہلے بھی کافی ساری ہوم ٹیویشنز دی تھیں ۔  لیکن ایسے کسی کالج میں  اسسٹنٹ پروفیسر لگ جانا پہلا تجربہ تھا ۔  اور چند دن ہی کلاس لی تو آٹے دال کا بھاؤ  پتہ چل گیا۔  ایک ایک کلاس میں  پچاس سے اَسّی تک کے درمیان طلبہ اور ان میں  سے بھی چند ایک کو چھوڑ کر باقی ایسے کہ بس 'مسٹر چپس'کی پہلی کلاس جیسا حال تھا۔  نیااستادتو ان کے لیے کھلونا تھا ۔ کالج میں  پروفیسری کا یہ دورانیہ قریباََ ساڑھے سات ماہ کا تھا۔ کلاس مینجمنٹ میں  گوناگوں  مسائل کے برعکس چند خوش کن نوک جھونک پر مشتمل واقعات بھی روز ہی پیش آتے رہے ۔  انہی اَن گنت دلچسپ لطائف میں  سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں:

یہ میری پروفیسر ی کا شاید تیسرا ہفتہ تھا ۔  جب میں  فرسٹ ائیر کی کلاس میں  داخل ہوا تو ایک شرارتی لڑکا اپنی سیٹ پر موجود نہیں  تھا ۔  میں  نے اس کی شرارتوں  میں  برابر کے حصے دار ایک اور طالب علم سے استفسار کیا کہ'عمر !وہ اشتہاری کدھرہے؟'اور 'عمر شریف'کا جواب کھٹ سے آیا۔ 'سر ! وہ اشتہار لگانے گیا ہے'۔

٭٭٭

مزید دِل چسپ  بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

میری ذمہ داری فقط FScکی کلاسوں  تک محدود تھی ۔  لیکن ایک دن BScکے فزکس کے پروفیسر کو کسی کام سے جانا تھا تو وہ ٹیسٹ مجھے دے کر چلے گئے ۔  اب میں  پہلی باران کی کلاس میں  پہنچا ۔  ٹیسٹ لیا اورواپس ہونے لگا تو طلبہ کے مطالبے پر اپنا تعارف کرادیا۔  جسے سن کر سامنے کی قطار میں  ایک لڑکا حیرت سے ساتھ اُٹھا اور بولا:

'سر!مجھے پہچانا کیا ؟ میں  آپ کا ہمسایہ ہوتا تھا'۔ میرے ذہن میں  ایک دو جھپاکے ہوئے اور میں  نے ذرا پرجوش ہو کر پوچھا۔

'ارے حسنات ! یہ تم ہو!!!'۔ 'جی سر!'  باقی ساری کلاس دلچسپی سے یہ ملن دیکھ رہی تھی۔ CRنے حسنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔  'سر !کیا آپ اسے جانتے ہیں ؟'۔ میں  نے ہاں  میں  سر ہلاتے ہوئے اسے بتایا 'ہاں  بھئی!  آج سے پانچ سال پہلے یہ تین سال کے لیے میرا ہمسایہ تھا!'۔ شاید جملہ تھوڑا پیچیدہ تھا جبھی ایک لڑکے کے آنکھیں  گھماتے ہوئے CRسے پوچھا۔

'سر کیا کہہ رہے تھے بھلا؟' ۔  اور وہ آفت کا پرکالہ یوں  گویا ہوا۔ 'سرکہہ رہے تھے کہ پانچ سال پہلے  جب یہ تین سال کا تھا  تو میرا ہمسایہ تھا'۔

٭٭٭

اور اس دن مجھے یقین ہوگیا کہ انگریزی چاہے ہم ہزار سال بولتے رہیں ۔  ہم کبھی سلامت سر پیر کے ساتھ اس سے نبھا نہیں  کرسکیں  گے ۔  ہوا یوں  کہ میں  کلاس میں  داخل ہوا تو ایک لڑکا باہر سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں  بیٹھا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔  ہم لوگ دوسری منزل پر تھے اور وہ کسی کی شرارت یا اپنی لاپرواہی سے نیچے بھی گر سکتا تھا۔  میں  نے غصے میں  اسے مخاطب کیا۔ ' شرارتی انسان! تم کھڑکی میں  کیوں  بیٹھے ہو؟؟؟' ۔  وہ فٹ پاتھ پر دُور جاتی ہوئی ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی ہی معصومیت سے بولا۔

' Sir! You don't believe, a beautiful girl just passed away!'

٭٭٭

ایک کلاس میں  کیمسٹری کے لیکچر سے اُکتا کر ایک لڑکے نے میرا دھیان بٹانا بلکہ ورغلانا چاہا۔ 'سر!کیمسٹری تو روز ہی پڑھتے ہیں  ،آج کچھ اور پڑھائیں  نا'۔ میں  نے دو چار منٹ ویسے ہی جنرل نالج پر بات کی اور پھر طلبہ سے دریافت کیا۔ 'کیا آپ بتاسکتے ہیں  کہ انسان میں  کتنی حِسّیں (Senses) ہوتی ہیں ؟'۔  'جی سر'۔ پوری کلاس میں  صرف ایک ہاتھ کھڑا ہوا۔  'جی بچے !بتائیں آپ!'۔  میں  نے اس سے پوچھا اور اس کا جواب میری جنرل نالج میں  خاطر خواہ اضافہ کرگیا۔  'سر ! انسان میں  دو حِسّیں  ہوتی ہیں '۔  وہ پورے اعتماد سے بولا۔ 'اچھا ؟؟؟وہ کون کون سی بھلا؟؟؟'۔  میں  طنزکیا لیکن اس کا جواب پورے طمطراق سے آیا۔ 'سر !پہلی Sixth Senseاور دوسری Common Sense 

٭٭٭

میں  نے اپنے چند روزہ تجربے سے یہ اندازہ لگایا کہ جب بھی پڑھتے پڑھتے طلبہ بور ہو جائیں  تو ریفریش ہونے کے لیے وہ چٹ پٹی باتیں  یا شرارتیں  کرتے ہیں ۔ اور ایسی حرکتیں  ان سے اکثر بے ارادہ سرزدہوتی تھیں ۔  ایسے ہی ایک کلاس میں سبق رَٹتے رَٹتے ایک لڑکا بول اُٹھا ۔ 'سر!دیکھیں  اسے 'یہ بار بار 'اوکھا 'ہو رہاہے ؟'۔  میرے کچھ پلے نہ پڑا کہ کیا بات کررہا ہے ۔  دوبارہ استفسار پر کہنے لگا۔ 'سر! یہ ہر بات کے آخر میں  OK،OKکہہ رہا ہے،اس کی طبیعت ٹھیک نہیں  ہے' ۔

٭٭٭

اب جہاں  ایسی باتیں  روز بلکہ ہر کلاس میں  کئی بار ہوں  ' وہاں  استاد کو ان کے حل کے ضمن میں  کوئی نہ کوئی قدم تواُٹھاناہی پڑنا تھا۔ میں  یہ حل نکالا کہ اگر وہ بوریت کی وجہ سے ایسی کوئی بات کربھی دیں  تو غصے ہونے بجائے میں  بھی کوئی نہ کوئی دلچسپ بات کردیتا'یوں دوچار منٹ کے ہنسی مذاق کے بعد وہ سب دوبارہ سے 'چارج'ہو کر پڑھنے لگتے ۔

فرسٹ ائیر کی کلاس میں  ہی پڑھتے پڑھتے اچانک ایک لڑکے سے شکایت نما مشورہ دیاکہ ۔  'سر ! یہ دونوں  لڑ رہے ہیں   انہیں  بتائیں  کہ لڑنا بری بات ہے'۔ میں  اس کی بوریت سمجھ گیا اور منہ بناتے ہوئے بولا۔ 'تو کیا ہوا 'لڑنا تو بری بات نہیں  ہے '۔  'جی سر؟' اس کے ساتھ ساتھ دو چار اور طالبعلموں  نے بھی حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔  'لڑنا بری بات نہیں  ہے ہاں البتہ  کاٹنا بری بات ہے '۔ اس بات کو سنتے ہی ان کی بوریت ایک زبردست قہقہے کے ساتھ ہوا ہوگئی۔

٭٭٭

ادبی وی لاگز   یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

 

مزید پڑھیں:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

بات پہنچی تیری جوانی تک

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے